قنوج شہر


اوچ سے قنوج ہجرت اور قیام ۔
حامد کبیربن ناصر الدین محمود، یہ اس خاندان کے پہلے بزرگ ہیں جو اوچ ملتان سے قنوج آکر مقیم ہوئے ان کو قنوج بطور جاگیر بادشاہ وقت سلطان فیروز الدین تغلق نے دیا تھا
مورخ ضیاء الدین برنی اپنی کتاب تاریخ فیروز شاہی میں حضرت جہانیاں جہاں گشت اور بادشاہ کے  مابین تعلقات کی تفصیلات
اس طرح بیان کرتے ہیں 
حضرت مخدوم جب اوچ سے برس دو برس کے بعد دہلی تشریف لاتے اور فرورز آباد کے قریب پہنچتے تو بادشاہ مند تک حضرت کے استقبال کے لیئے پہنچتا اور بڑے اعزاز و اکرام سے آپ کو شہر لاتا حضرت مخدوم کبھی منارہ سے  متصل کوشک  معظم میں اور کبھی شفا خانہ مِں اور کبھی شہزادہ فتح خان کی خانقاہ میں قیام فرماتے تھے  جب حضرت مخدوم معمول کے مطابق اپنی قیام گاہ سے سلطان  فیروز تغلق سے ملنے کے لیئے تشریف لاتے تو جونہی حضرت  والا محل حجاب میں پہنچ کر سلام کہتے ۔ بادشاہ فورا تخت گاہ سے نیچے اتر کر کھڑا ہوجاتا اور بڑے  انکسار و تواضع
سے پیش آتا ۔
تاریخ فیروز شاہی میں فیروز شاہ اور
فیروز شاہ تغلق اورحضرت جہانیاں جہاں گشت  کے مابین روابط اور تعلقات کے حوالے سے بہت کچھ  تحریر کیا ہے مگر اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ مرید فیروز شاہ اپنے پیر حضرت جہانیاں جہاں گشت  کا کس قدر ادب و احترام کرتا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار بادشاہ نے اپنے پیرحضرت جہانیاں جہاں گشت  کو دہلی سے اوچ جانے سے روکنے کی انتہائی کوشش کی تو اس پر حضرت جہانیاں جہاں گشت  نے اپنے بڑے بیٹے مخدوم سید ناصر الدین محمود کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی  میرے مثل ہے جس پر فیروز شاہ نے  مخدوم سید ناصر الدین محمود کو  قنوج کا شہر اور علاقہ حضرت جہانیاں جہاں گشت  کے بڑے بیٹے کے حوالے سے بخش دیا  یہ ہی وجہ ہے کہ اس کے بعد نقوی سادات کی ایک بڑی تعداد نے قنوج شہر کو اپنا مسکن بنا لیا     ،
                                               حضرت جلا ل الدین بخاری کے پوتے اور مخدوم ناصر الدین کے  
بیٹے سید حامد کبیر بخاری کو دہلی کے بادشاہ  فیرو ز شاہ تغلق نے قنوج میں جاگیر دی اس طرح اوچ کے بخاری خاندان کی ایک شاخ قنوج میں جاکر مقیم ہوگئی
بات سامنے آتی ہے کہ نواب صدیق حسن خان کے آباء میں سے جلال رابع بن سید راجو شہید بن سید جلال ثالث بن حامد کبیر بن ناصر الدین محمودبن جلا ل الدین بخاری معروف بمخدوم جہانیاں جہاں گشت اہل عالم و اولیا ء میں سے شمار کئے جاتے تھے ۔۔۔۔
۔نواب صدیق حسن خان آگے لکھتے ہیں میرے والد سید اولاد حسن رحمہ اللہ نے شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہما سے علم حاصل کیا تھا نوٹ ابھی یہ نامکمل ہے۔