علامہ نواب صدیق حسن خاں کی "الروضۃ الندیۃ" ایک تعارف

علامہ نواب صدیق حسن خاں کی "الروضۃ الندیۃ" ایک تعارف
مولانا رفیق احمد سلفی
بشکریہ
 پیام توحید۔۔۔۔۔۔بہار بھارت 
علامہ نواب والا جاہ امیر الملک محمد صدیق حسن خاں
(۱۸۳۲ء-۱۸۹۰ء) کی کتاب "الروضۃ الندیۃ" فقہ اسلامی خاص طور سے فقہ سنت کے وقیع ذخیرے میں بلا شبہ ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالحمید احمد ابوسلیمان نے اپنی کتاب "دلیل مکتبۃ الأسرة المسلمۃ"میں مسلم نوجوانوں کو اپنے مطالعے کی لائبریریوں کومختلف علوم وفنون کی جن کتابوں سے زینت بخشنے کا مشورہ دیا ہے، ان میں فقہ اور اصول کی کتابوں کی ضمن میں  "الروضۃ الندیۃ" کا نام بھی سرفہرست ذکرکیا ہے۔
نواب صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں اپنی تصنیفات کی درجہ بندی کی ہے۔ اپنی بہترین تصانیف کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
 "میری تالیفات میں سے جو کتابیں معتبر یا عَلم الہدیٰ کا درجہ رکھتی ہیں وہ یہ ہیں۔"
آگے اپنی ان کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کو انہوں نے پہلے درجے میں رکھا ہے اور ان میں "الروضۃ الندیۃ" کو بھی شامل کیا ہے۔
 نواب صاحب کی یہ لاجواب کتاب ان کی کوئی مستقل تصنیف نہیں، یہ دراصل یمن کے مشہور و مجتہد عالم علامہ محمد بن علی الشوکانی        (۱۱۷۳-۱۲۵۱ھ)    کی مشہور تالیف "الدررالبھیۃ فی المسائل الفقھیۃ" کی شرح ہے۔امام شوکانی شروع میں زیدی مذہب کے پیرو تھے۔ کتاب وسنت اور فقہ واصول میں انہیں غیر معمولی دست گاہ حاصل تھی۔ فکرونظر میںوسعت اور اپنی بےپناہ خداداد ذہانت کے نتیجے میں انہوںنے بہت جلد تقلیدی بندشوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا۔ اور شرعی احکام ومسائل کے استخراج واستنباط میں خالص کتاب وسنت پر اعتماد کرنے لگ گئے۔اور کسی مخصوص فقہی مسلک کے اصولوں کی پیروی کے بجائے فقہ سنت کے داعی وعلم بردار اور ایک عظیم مجتہد بن کر ابھرے۔ فقہ سنت میں انہوں نے تین کتابیں "نیل الأوطار، السیر الجرار اور الدرر البھیۃ" تالیف فرمائی۔
پہلی دونوں کتابیں بہت مفصل اور جامع ہیں، اور اپنے موضوع پر انفرادی شان کی حامل ہیں۔ تیسری کتاب فقہ کے مبتدی طلبہ کے لیے متن     (Text Book)    کے طورپر لکھی۔ اس لیے اس میں غایت درجے کا اختصار ملحوظ رکھا۔ تاکہ مسائل کے حفظ و ضبط میں طلبہ کے لیے آسانی ہو۔ اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں خالص رائے پر مبنی مسائل کے ذکر سے احتراز کیاگیاہے۔ اور روزمرہ کے پیش آنے والے انہیں مسائل کو جمع کرنے پراکتفاکیا گیا ہے جو کتاب وسنت کے نصوص سے ثابت ہںج۔ کتاب کی تالیف کے مقصداور منہج پر روشنی ڈالتے ہوئے مولف رقم طراز ہیں:
"قاصدا بذلک جمع المسائل التی صح دلیلھا واتضح سبیلھا تارکا لماکان منھا من محض الرائی، فإنہ قالھا وقیلھا فنسبة ھذا المختصر إلی المطولات من الکتب الفقھیة نسبة السبیکة الذھبیة إلی التربة المعدنیة۔"
 اس سے مقصد ایسے مسائل کو جمع کرنا ہے جن کی دللی صححس اورجن کاراستہ واضح ہے، اورجومسائل خالص رائے پر مبنی ہںح، انہںو نظرانداز کردیناہے، اس لےر کہ یہ صرف قل وقال ہںق،اس سے زیادہ ان کی کوئی حتاہے نہں ،لہذافقہ کی ضخمل کتابوں کے درماین اس کتاب کی حتی ا وہی ہے، جو خالص سونے کے ڈلے کی معدنی مٹی مںی ہوتی ہے۔
 نواب صاحب نے اس کتاب کے متعلق اپنی وقیع اور گراں قدر رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیاہے:
 "محض فیہ النصح النصیح ومخض عن زبد الحق الصریح وأتی بتحقیات جلیلة خلت عنھا الدفاتر وأشار إلی تدقیقات نفیسة لم تحوھا صحف الأکابر"
 مؤلف نے اس کتاب مںں صرف انہی مسائل کا ذکر کا ہے، جوکتاب وسنت کی کسوٹی پر انتہائی کھرے ثابت ہوچکے ہں،، اورایسی اہم تحققاکت پشے کی ہںا، جن سے بڑی بڑی کتابںو خالی ہںس، اورایسے عمدہ نکات کی جانب اشارے کے، ہیںجواکابرکی کتابوںمیں نہںس ملتے ہںک۔
 ان خصوصیا ت کی بنا پر علمی حلقوں میں اس کتاب کو زبردست شرف پزیرائی حاصل ہوا اور اہل علم کی ایک جماعت نے خود مؤلف سے اس کی شرح لکھنے کی درخواست کی۔ چنانچہ اہل علم کے اصرار پر مؤلف نے "الدراری المضیئۃ" کے نام سے اس کی ایک شرح لکھی جس میں کتاب وسنت سے ہرمسئلے کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے بعض مسائل میں علماءکے اقوال پر بھی روشنی ڈالی۔ اور بعض اہم اور پیچیدہ مقامات کی اختصارسے شرح ووضاحت فرمائی۔ یہ شرح ۱۲۲۰ھ میں پایۂ تکمیل کو پہنچی اور مصر، یمن، بیروت اور کویت وغیرہ سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جس میں محمد صبحی حلاق کا ایڈٹ کردہ ایڈیشن بھی شامل ہے۔ جسے "دار الجیل الجدید الصنعا" نے شائع کیا۔
 امام شوکانی کے صاحب زادۂ گرامی احمد بن محمد شوکانی (۱۲۲۹-۱۲۸۱ھ جن کا شمار یمن کے اکابر علماءمیں ہوتا ہے) نے"السموط الذھبیۃ"کے نام سے اس شرح کی تہذیب لکھی۔ جس میں انہوں نے مزید اختصار سے کام لتےا ہوئے متن کو شرح میں داخل کردیا، اور اقوال ائمہ کو ساقط کردیا۔ اور مخرجنم احادیث کے لیے اشارے اور رموز مقررکردیے۔یہ تلخیص وتہذیب ۱۴۱۰ھ میں "مؤسسة الرسالۃ لبنان" سے شائع ہوئی۔
 ایک شاعر نے ان دونوں کتابوں کو اپنا منظوم خراج تحسین ان الفاظ میں پیش کیا ہے اور شرعی مسائل کے شائقین کو ان سے برابر استفادہ کرتے رہنے کی تلقین کی ہے:
 إن شئت فی شرع النبی
 تقدح بزند فیہ واری
 فاعکف علی الدرر التی
 سلکت بسمط من دراری
 متن کی طرح مؤلف نے اس شرح میں بھی بہت اختصار سے کام لیا تھا۔ علماءکے اقوال اور ان کے دلائل سے بحث بہت کم کی تھی، ضرورت تھی کہ ان مسائل پر قدرے تفصیل سے بحث کی جائے اور راجح قول اور اس کی دلیل کے ساتھ مرجوح اقوال اور ان کے دلائل اور راجح قول کی ترجیح کے وجوہ پر بھی اختصارسے روشنی ڈالی جائے۔
 نواب صاحب نے اپنی یہ لاجواب شرح اسی مقصد اور ضرورت کے تحت تالیف فرمائی۔ ابوعبداللہ محمد بن عبدالعزیز الخضیری نواب صاحب کی کتاب کی تالیف کے سبب اور منہج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
 "وکان اقتصار المصنف فی أکثر شرحہ علی ذکر الأدلة سببا لأن یکتب الشیخ صدیق حسن خاں شرحہ المشھور "الروضة الندیة" لشرح "الدررالبھیة" وقد ضمنہ الدراری برمتہ فلم یسقط منہ شیئاوزاد علیہ أقوال العلماءفی جملة من مسائلہ وبعض الفوائد والتعقبات والترجیحات الیسیرة"
 یعنی مصنف کا اپنی شرح کے بشتر مسائل مںع صرف دللوعں پر اکتفاکرناہی شخن صدیق حسن خاں کی مشہور شرح "الروضة الندیۃ"کی تالیف کا سبب بنی، شخخ نے پوری "الدراری المضیئۃ" اس مںک شامل فرمالی ہے، کوئی چزل اس مںض سے حذف نہںا کی بلکہ اس مںل بہت سے مسائل مںل علماءکے اقوال، بعض فوائد اورہلکے پھلکے اعتراضات اورترجحاںت کااضافہ کاذہے۔
 یہ شرح دوحصوں پر مشتمل ہے؛ پہلے حصے میںطہارت، صلاة، جنائز، زکوة، خمس، صیام او ر حج کے کتب ہیں۔ اورہر کتاب مختلف ابواب اورفصول مںم منقسم ہے اور دوسرے حصے میں نکاح، طلاق، بیوع، ایمان ونذور، اطعمہ، اشربہ، لباس، اضحیہ، طب، وکالہ، ضمانہ، صلح ، حوالہ، افلاس، لقطہ، قضا، خصومہ، حدود، قصاص، دیات، وصایا، مواریث اور جہاد وسیر کے کتب ہیں۔ ان مںم بھی اکثرکتب مختلف ابواب وفصول مںو منقسم ہںں۔
 نواب صاحب نے فقہ کے جزوی اور عمومی مسائل پر اردو فارسی اور عربی میں چھوٹی بڑی کئی درجن کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ جن میں"الروضۃ الندیۃ"کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور کتاب کو نہیں۔
 نواب صاحب کی یہ شاہکار تصنیف متوسط سائز کی تین سو سولہ(۳۱۶) صفحات پر مشتمل پہلی بار ۱۲۹۰ھ میں مطبع علوی لکھنوسے طبع ہوکر منظر عام پر آئی۔ نواب صاحب کے خصوصی تربیت یافتہ مولانا ذوالفقار احمدبھوپالی جوان کی کتابوں کے مسودات کی نقل وتبییض اورطباعتی امور کی نگرانی میں ان کے معاون اور شریک کارتھے، اپنی کتاب"قضاءالارب من ذکر علماءالنحووالأدب" میں رقم طراز ہیں۔
 "نواب صاحب نے "شرح درربہیہ مسمیٰ بہ روضہ ندیہ"تالفش فرمائی مسودۂ خاص سے مںش نے ایک نسخہ نقل کا تاکہ طبع کے لےش لکھنؤبھیجی جائے۔"
 اس کتاب کو عرب وعجم میں جو شرف پذیرائی حاصل ہوا اس کا اندازہ ان ایڈیشنوں سے کیا جاسکتاہے جو مصر وبیروت سعودی عرب اور قطر وغیرہ سے متعددبار شائع ہوئے۔
 علامہ احمد محمد شاکر نے اس کتاب پر خصوصی مقدمہ لکھا جو طبع منیریہ میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر محمد صبحی حلاق نے خصوصی اہتمام کے ساتھ اسے ایڈٹ کیا، اس پر قیمتیتعلیقات لکھیں، اس کے نصوص کی تحقیقوتصححک احادیث کی تخریج اورابواب وفصول کی ترقم کی اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا،جس کے دوجلدوں پرمشتمل اب تک پانچ انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ایڈیشن مکتبہ کوثر ریاض سے شائع ہوچکے ہیں۔
 محدث عصر علامہ البانی کو یہ کتاب اس قدر پسند تھی کہ اپنی مجالس میں اس کے درس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ان کے شاگرد رشدو استاد محمد عید عباسی ان سے اپنے اس کتاب کے سبقاً سبقاً پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 (ولقد درسناہ کاملابجمیع أبوابہ) "ہم نے ان سے یہ کتاب جملہ ابواب سمتو بالاستعایب پڑھی ہے۔"
 آگے علامہ البانی کے منہج درس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
 (وکان أستاذنا -حفظہ اللہ- یشرح شرحا علمیا محققالایترک مسئلة صغیرة ولاکبیرة إلا یجلیھا ویوضح غامضھا ویعلق علی ما یقرأ موافقا أو مختلفا وھو فی جمیع ذلک یستند إلی أقوی الحجج وأثبت البراھین)
 "استاذ محترم ایک محقق کی طرح اس کی علمی شرح فرماتے تھے۔ کوئی چھوٹا بڑا مسئلہ بغر واضح کے نہں رہتے۔ پدما ہ مقامات کی تشریح وتوضحر فرماتے اورجوچزمیں ان پرپڑھی جاتںی ان پر موافق اورمخالف تعلقم فرماتے۔ اورجملہ مسائل مںت قوی ترین دلائل اور ثابت شدہ براہنف سے استنادفرماتے۔"
 اثنائے درس علامہ البانی کے پاس "ادارہ طباعہ منیریہ، مصر" کا نسخہ ہوتاتھا، جس پر اپنی مفید اور قیمتی تعلیقات بھی نوٹ کرتے جاتے تھے، جو حال ہی میں دوجلدوںمیں "التعلیقات الرضیة علی الروضۃالندیۃ" کے نام سے طبع ہوکر منظر عام پر آئی ہے۔علامہ البانی نے طلبہ کو فقہ میں سید سابق کی "فقہ السنۃ" کے ساتھ نواب صاحب کی "الروضة الندیۃ" کے مطالعے کی بھی نصیحت فرمائی ہے۔اور سید سابق کے علمی منہج کے اس نقص کی جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ اس مں بہت سے مسائل میں علماء کے اقوال اور ان کی دلیلوں کو ذکر کرکے کوئی فصلہس کئے بغرہ چھوڑدیتے ہیں۔راجح مسئلے کی تعیین اور اس کی ترجیح کے وجوہ کا ذکر نہیں کرتے، جو طلبہ کے لیے ذہنی انتشار اور حیرانی کا باعث بنتاہے۔ اس کے برخلاف نواب صاحب کی کتاب خالص سلفی منہج کی نمائندگی کرتی ہے اور کتاب وسنت پر مبنی دلیل سے راجح قول کی تعیین اور مرجوح اقوال کے ضعف وسقم کی طرف بھی اشارہ کردیتی ہے، جس سے طلبہ کو تشفی حاصل ہوجاتی ہے۔
 "الروضة الندیة"کے محقق شخل محمد صبحی حسن حلاق کتاب سے متعلق اپنی رائے کااظہاران الفاظ مںا کرتے ہںا۔
 (والحق أن کتاب الروضةامتازبإثبات القول الراجح من مجموع الأقوال المتعارضة مع الدلیل وعرض المسائل الفقھیة عرضا میسوراً بعبارات جلیة)
 "حق یہ ہے کہ "الروضة الندیة" اقوال متعارضہ مںا سے راجح قول کو دلل" کے ساتھ ثابت کر نے اورفقہی مسائل کو آسان اورواضح الفاظ اورانداز مںے پشر کرنے میںمنفرد اورامتیازی شان کی حامل ہے۔"
 نواب صاحب کو علوم دینیہ خاص طور سے تفسیر وحدیث اور فقہ سے فطری اور طبعی مناسبت تھی۔ فقہ سنت میں انہیں جو کمال حاصل تھا، اس میں ان کے ہم عصر علماءمیں شاید ہی ان کی کوئی ہمسری کرسکے۔ علوم کتاب وسنت میں انہیں کامل عبور حاصل تھا۔ ادلۂ شرعیہ سے مسائل کے استخراج واستنباط کا جو ملکۂ راسخہ مبداءفیاض کی طرف سے ان کو ملا تھا، اور ائمۂ مذاہب کے اقوال اور ان کی دلیلوں کی نقد وپرکھ کی جو گہری بصیرت اورفقیہانہ ژرف نگاہی انہیںحاصل تھی اس کا اعتراف ہر وہ شخص کرنے پر مجبور ہے جس نے ان کی اس شاہکار تصنیف کا بنظر غایر مطالعہ کیا ہے۔
 نواب صاحب دلیل کی اتباع کو پسند کرتے ہیں۔ وہ بعید تاویلات اور رکک توضیحات کوہرگزقبول نہیںکرتے۔"إبقاءالمنن" میں وہ اپنی پسندیدہ روش کا اظہار ان الفاظ میںکرتے ہیں:
 "مجھے وہ مذہب پسند ہے جو دلائل کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح، قوی اور احوط ہو۔ اس بات کو میں ہرگز پسند نہیںکرتا کہ اہل علم کے قول کے مقابلے میں کتاب وسنت کے دلائل کو ترک کردیا جائے۔"
 وہ علماءکے اقوال کو کتاب وسنت کی کسوٹی پرپرکھتے ہیں اور جس قول کو دلیل کے اعتبار سے راجح پاتے ہیں اسے بلاکسی پس وپیش کے قبول کرلیتے ہیں۔
 اقوال کی ترجیح میں وہ مذہبی تعصب اور خواہش نفس کو ہرگز آڑے آنے نہیں دیتے۔ وہ جس قول کو رد کرتے ہیں، بڑے لطیف انداز میں اس کے سقم کو واضح کردیتے ہیں۔
 جہاں تک کتاب کے افادی مباحث اور پہلووں کا تعلق ہے تو اس ناحیے سے ہم بلامبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نواب صاحب کی یہ شرح مؤلف کی شرح پر درج ذیل کئی وجوہ سے فائق ہے:
 ۱۔ امام شوکانی کی "شرح الدراری المضیئة" پوری کی پوری اس میں آگئی ہے۔ کوئی حصہ بھی انہوںنے اس کا حذف نہیں کاس ہے۔
 ۲۔راجح قول اور اس کی دلیل کے ساتھ اکثر مرجوح اقوال اور ان کے دلائل کا بھی اس مں ذکر کیا ہے۔
 ۳۔راجح قول کی ترجیح کے وجوہ اور مرجوح اقوال کے ضعف اور سقم پر بھی اس مںک اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
 ۴۔اس میں امام شوکانی کی دوسری مؤلفات اوردیگرکتب سے مزید بہت سے قیمتی فوائد کا بھی اضافہ کاگ ہے۔
 ۵۔کتاب کا اسلوب نہایت واضح صاف شگفتہ اوردل آویزہے۔ علمی متانت اوروقارہرہرلفظ سے عاہں ہے۔ کہںے ایک لفظ بھی ایسانہیںجس سے کسی کی دل آزاری مقصود ہو۔ نواب صاحب کے قلم کی یہ خصوصتا ان کی تمام تصنفاوت مںا نمایاںہے۔
 اس مختصر جائزے کے خاتمے پر نواب صاحب کی تالفاتت پر مولانا محمد اسماعلک سلفی گجرانوالہ کا یہ حققتت پر مبنی نہایت جامع اورمتوازن تبصرہ نقل کردینابہتراورمناسب ہوگا۔ وہ فرماتے ہںت:
 "اپنے دور مںو نواب صدیق حسن خاں صاحب کا مقام منفرد ہے۔ ا ن کے قلم سے زیادہ تر ایجابی انداز کی چز یں نکلیں۔ اگرکبھی سلبی انداز کی کوئی کتاب نوک قلم تک آئی تو اس مں بھی سنجدیگی اس طرح غالب تھی کہ اس کی سلبی حت م نمایاں نہ ہوسکی۔تفسیر فتح البیان، عون الباری، السراج الوہاج، فتح العلام،مسک الختام،الروضۃالندیۃ، أبجدالعلوم،اتحاف النبلاءوغروہ ایسی چز یں ہںم، جن کے بارِ احسان سے امت سبکدوش نہ ںو ہوسکےگی۔"
 
بشکریہ پیام توحید۔۔۔۔۔۔...